May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 150

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِي فَلاَ تُشْمِتْ بِيَ الأعْدَاء وَلاَ تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ 

اور جب موسیٰ غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : ’’ تم نے میرے بعد میری کتنی بُری نمائندگی کی ! کیا تم نے اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ اپنے رَبّ کے حکم کا بھی انتظار نہیں کیا ؟ ‘‘ اور (یہ کہہ کر) انہوں نے تختیاں پھینک دیں ، اور اپنے بھائی (ہارون علیہ السلام) کا سر پکڑ کر اُن کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔ وہ بولے : ’’ اے میری ماں کے بیٹے ! یقین جانئے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا، اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کر دیتے۔ اب آپ دُشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجئے، اور مجھے اِن ظالم لوگوں میں شمار نہ کیجئے۔ ‘‘

آیت 150:  وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہ غَضْبَانَ اَسِفًا:  ’’اور جب موسیٰ لوٹے اپنی قوم کی طرف سخت غضبناک ہو کر افسوس میں‘‘

            غَضْبَان‘ رَحْمٰن کی طرح فَعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی آپ نہایت غضب ناک تھے۔ حضرت موسیٰ  کا مزاج بھی جلالی تھا اور قوم کے جرم اور گمراہی کی نوعیت بھی بہت شدید تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر ہی بتا دیا تھا کہ تمہاری قوم فتنہ میں پڑ چکی ہے لہٰذا ان کا غم و غصہ اور رنج و افسوس بالکل بجا تھا۔

            قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ بَعْدِیْ:  ’’آپ نے فرمایا بہت بری ہے میری نیابت جو تم نے کی ہے میرے بعد۔‘‘

            یہ خطاب حضرت ہارون سے بھی ہو سکتا ہے اور اپنی پوری قوم سے بھی۔

            اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ:  ’’کیا تم نے اپنے رب کے معاملے میں جلدی کی؟‘‘

            یعنی اگر سامری نے فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا تو تم لوگ اس قدر جلد بغیر سوچے سمجھے اس کے کہنے میں آ گئے؟ کم از کم میرے واپس آنے کا ہی انتظار کر لیتے!

            وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ:  ’’اور آپ نے وہ تختیاں (ایک طرف) ڈال دیں‘‘

            کوہِ طور سے جو تورات کی تختیاں لے کر آئے تھے وہ ابھی تک آپ کے ہاتھ میں ہی تھیں، تو آپ نے ان تخیتوں کو ایک طرف زمین پر رکھ دیا۔

            وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہ اِلَـیْہِ:  ’’اور (غصے میں) اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔‘‘

            حضرت موسیٰ نے غصے میں حضرت ہارون کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ میں تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر گیا تھا، میرے پیچھے تم نے یہ کیا کیا؟ تم نے قوم کے لوگوں کو اس بچھڑے کی پوجا کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

            قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ:  ’’(ہارون نے) کہا کہ اے میرے ماں جائے، حقیقت میں قوم نے مجھے دبا لیا تھا اور وہ میرے قتل پر آمادہ ہو گئے تھے‘‘

            میں نے تو ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا، لیکن انہوں نے مجھے بالکل بے بس کر دیا تھا۔ اس معاملے میں ان لوگوں نے اس حد تک جسارت کی تھی کہ وہ میری جان کے درپے ہو گئے تھے۔

            فَلاَ تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ :  ’’تو (دیکھیں اب) دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں‘‘

            ’’شماتت ِاَعداء‘‘ کا محاورہ ہمارے ہاں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی کی توہین اور بے عزتی پر اس کے دشمنوں کا خوش ہونا اور ہنسنا۔ حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ سے درخواست کی کہ اب اس طرح میرے بال کھینچ کر آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔

            وَلاَ تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ :  ’’اور مجھے ان ظالموں کے ساتھ شامل نہ کیجیے۔‘‘

            آپ مجھے ان ظالموں کے ساتھ شمار نہ کیجیے۔ میں اس معاملے میں ہر گز ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں تو انہیں اس حرکت سے منع کرتا رہا تھا۔ 

UP
X
<>