May 18, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 168

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَمًا مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اور ہم نے دُنیا میں اُن کو مختلف جماعتوں میں بانٹ دیا۔ چنانچہ ان میں نیک لوگ بھی تھے، اور کچھ دوسری طرح کے لوگ بھی۔ اور ہم نے انہیں اچھے اور برے حالات سے آزمایا، تاکہ وہ (راہِ راست کی طرف) لوٹ آئیں

آیت 168: وَقَطَّعْنٰـہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا:  ’’اور ہم نے انہیں زمین کے اندر منتشر کر دیا فرقوں کی صورت میں۔‘‘

            بنی اسرائیل کا یہ دورِ انتشار (Diaspora) ۷۰ عیسوی میں شروع ہوا‘ جب رومن جنرل ٹائٹس نے ان کے معبد ثانی (2nd Temple) کو شہید کیا (جو حضرت عزیر کے زمانے میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا)۔ ٹائٹس کے حکم سے یروشلم میں ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودیوں کو ایک دن میں قتل کیا گیا اور بچ جانے والوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا۔ چنانچہ یہاں سے ملک بدر ہونے کے بعد یہ لوگ مصر، ہندوستان‘ روس اور یورپ کے مختلف علاقوں میں جا بسے۔ پھر جب امریکہ دریافت ہوا تو بہت سے یہودی خاندان وہاں جا کر آباد ہو گئے۔ اس آیت میں ان کے اسی ’’انتشار‘‘ کی طرف اشارہ ہے کہ پوری دنیا میں انہیں منتشر کر دیا گیا اور اس طرح ان کی اجتماعیت ختم ہو کر رہ گئی۔ دوسری طرف وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں ان سے شدید نفرت کی جاتی رہی‘ جس کے باعث ان پر یورپ میں بہت ظلم ہوئے۔ عیسائیوں کی ان سے نفرت اور شدید دشمنی کا ذکر قرآن میں بھی ہے: فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.  (المائدۃ : 14) ’’پس ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت تک کے لیے ڈال دیا‘‘۔ یہ دشمنی یہودیوں کے اُن گستاخانہ عقائد کی وجہ سے تھی جو وہ حضرت مسیح اور حضرت مریم کے بارے میں رکھتے تھے۔

            پھر جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کے ہاتھوں تو یہودیوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی۔ اس کے حکم پر پورے مشرقی یورپ سے یہودیوں کو اکٹھا کر کے concentration camps میں جمع کیا گیا اور اِن کے اجتماعی قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی، جس کے لیے لاکھوں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید آٹو میٹک پلانٹ نصب کیے گئے۔ چنانچہ مردوں، عورتوں اوربچوں کو اجتماعی طور پر ایک بڑے ہال میں جمع کیا جاتا‘ وہاں ا ن کے کپڑے اتروائے جاتے اور بال مونڈ دیے جاتے (بعد میں ان بالوں سے قالین تیار کیے گئے جو نازیوں نے اپنے دفتروں میں بچھائے)، اور پھر انہیں وہاں سے بڑے بڑے گیس چیمبرز میں داخل کر دیا جاتا۔ وہاں مرنے کے بعد مشینوں کے ذریعے سے لاشوں کا چورا کیا جاتا اور پھر خاص قسم کے کیمیکلز کی مدد سے انسانی گوشت کو ایک سیاہ رنگ کے سیال مادے میں تبدیل کر کے کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کیا جاتا۔ یہ سب کچھ بیسویں صدی میں آج کے اس مہذب دور میں ہوا۔ اس طریقے سے ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے۔ یہود کے اس قتل عام کو ’’Holocaust‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ساٹھ لاکھ کی تعداد مبالغے پر مبنی ہے‘ اصل تعداد چالیس لاکھ تھی۔ چالیس لاکھ ہی سہی‘ اتنی بڑی تعداد میں قتل عام قومی سطح پر کتنا دردناک عذاب ہے! یہ ان کی تاریخ کے اب تک کے حالات و واقعات میں سے مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ: کی ایک جھلک ہے۔ اور اس سلسلے میں قیامت تک مزید کیا کچھ ہونے والا ہے اس کی خبر ابھی پردہ ٔغیب میں ہے۔

            بہر حال یہودیوں کا آخری وقت بہت جلد آنے والا ہے‘ مگر جیسے چراغ کا شعلہ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے، بالکل اسی انداز سے آج کل ہمیں ان کی حکومت اور طاقت نظر آ رہی ہے۔ اور شاید یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ عربوں (جو حضور اکرم کے مخاطب اول اور وارثِ اوّل ہونے کے باوجود دین سے پیٹھ پھیرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں) کو ایک ’’مغضوب علیہم‘‘ قوم کے ہاتھوں ہزیمت سے دو چار کر کے سزا دینا اور ’’to add insult to injury‘‘ کے مصداق اس ذلیل قوم کے ہاتھوں عربوں کی تذلیل مقصود ہے۔ اندریں حالات ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب مسجد ِاقصیٰ شہید کر دی جائے گی اور اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں جو طوفان اٹھے گا وہ یہودیوں کا سب کچھ بہا کر لے جائے گا‘ لیکن ان کے اس سلسلۂ عذاب کی آخری شکل حضرت مسیح کے ظہور کے بعد سامنے آئے گی۔ جیسے پہلے تمام رسولوں کے منکرین ان کی موجودگی میں ختم کر دیے گئے تھے (چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے واقعات تکرار کے ساتھ قرآن میں آئے ہیں) اسی طرح حضرت عیسیٰ کے منکرین کو بھی ان کی موجود گی میں ختم کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف اللہ کے رسول تھے: وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ .........:  (آلِ عمران : 49)۔ یہودی نہ صرف آپ کے منکر ہوئے بلکہ (بزعم خویش) انہوں نے آپ کو قتل بھی کر دیا۔ لہٰذا بحیثیت قوم ان کا اجتماعی استیصال بھی حضرت مسیح ہی کے ہاتھوں ہو گا۔

            مِنْہُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ:  ’’ان میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اورکچھ وہ بھی ہیں جو دوسری طرح کے ہیں۔‘‘

            وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ:  ’’ہم انہیں بھلائی اور برائی سے آزماتے رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ لوٹ آئیں۔‘‘ 

UP
X
<>