May 7, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 176

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی بدولت اُسے سر بلند کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا رہا، اس لئے اُس کی مثال اُس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اُس پر حملہ کرو تب بھی وہ زبان لٹکا کر ہانپے گا، اور اگر اُسے (اُس کے حال پر) چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکا کر ہانپے گا۔ یہ ہے مثال اُن لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ لہٰذا تم یہ واقعات ان کو سناتے رہو، تاکہ یہ کچھ سوچیں

آیت 176:  وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰـہُ بِہَا وَلٰـکِنَّہ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ:  ’’اور اگر ہم چاہتے تو ان (آیات) کے ذریعے سے اسے اور بلند کرتے مگر وہ تو زمین کی طرف ہی دھنستا چلا گیا‘‘

            یعنی اللہ کی آیات اور جو بھی علم اس کو عطا ہوا تھا اس کے ذریعے سے اس کو بڑا بلند مقام مل سکتا تھا مگر وہ تو زمین ہی کی طرف دھنستا چلا گیا۔ یہاں پر زمین کی طرف دھنسنے کے استعارے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان دراصل حیوانی جسم اور ملکوتی روح سے مرکب ہے۔ جسم کے اجزا ئے ترکیبی کا تعلق زمین سے ہے‘ جیسا کہ سورہ طٰہٰ کی آیت 55 میں فرمایا گیا: مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ.  یعنی ہم نے تمہیں اس زمین سے پیدا کیا۔ اس کے برعکس انسانی روح کا تعلق عالم بالا سے ہے اور وہ اللہ سے «اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ»  والا عہد کر کے آئی ہے۔ چنانچہ اصل کے اس تضاد کی بنیاد پر جسم اور روح میں متواتر کشمکش رہتی ہے۔ ’’کُلُّ شَیْئٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہ‘‘ (ہر چیز اپنے منبع کی طرف لوٹتی ہے) کے مصداق رُوح اُوپر اٹھنا چاہتی ہے تا کہ اللہ سے قرب حاصل کر سکے‘ جبکہ جسم کی ساری کشش زمین کی طرف ہوتی ہے۔ چونکہ جسم کی تقویت کا سارا سامان، غذا وغیرہ زمین ہی کے مرہونِ منت ہے، اس لیے زمینی اور دنیاوی لذتوں میں ہی اسے سکون ملتا ہے اور ع ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کا نعرہ اسے اچھا لگتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ جسمانی ضرورتوں اور لذتوں کے حصول کے لیے اس نے زمین کے ساتھ ہی چمٹ کر رہنا ہے تو گویا اب اس نے اپنے آپ کو اللہ کی توفیق سے محروم کر لیا۔ اب اس کی روح سسکتی رہے گی‘ احتجاج کرتی رہے گی اور اگر زیادہ مدت تک اس کی روحانی غذا کا بندوبست نہیں کیا جائے گا تو روح کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اگر کسی انسان کے جیتے جی اس کی روح کے ساتھ یہ حادثہ ہو جائے، یعنی اس کی روح کی موت واقع ہو جائے تو گویا وہ چلتا پھرتا حیوان بن جاتا ہے‘ جو اپنے سارے حیوانی تقاضے حیوانی انداز میں پورے کر تا رہتا ہے۔ پھر زمینی غذائیں، سِفلی آرزوئیں اور مادی امنگیں ہی اس کی زندگی کا مقصد و محور قرار پاتی ہیں۔ نتیجتاً اسے فیضانِ سماوی اور توفیق الٰہی سے کلی طور پر محروم کر دیا جاتا ہے۔

            وَاتَّـبَعَ ہَوٰہُ:  ’’اور اس نے پیروی کی اپنی خواہشات کی۔‘‘

            فَمَثَلُہ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ:  ’’ تو اس کی مثال کتے کی سی ہے‘ اگر تم اس کے اوپر بوجھ رکھو تب بھی ہانپے گا اور اگر چھوڑ بھی دو تب بھی ہانپتا رہے گا۔‘‘

            یعنی اس شخص نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے خود کو کتے سے مشابہ کر لیا‘ جو ہر وقت زبان نکالے ہانپتا رہتا ہے اور حرص وطمع کے غلبے کی وجہ سے ہر وقت زمین کو سونگھتے رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔

            ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:  ’’یہی مثال ہے اُس قوم کی (بھی) جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔‘‘

            اوپر تفصیل کے ساتھ یہود کی جو سرگزشت بیان ہوئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قوم شروع سے ہی بلعم بن باعوراء بنی رہی ہے۔ آج اس کی سب سے بڑی مثال پاکستانی قوم ہے۔ پاکستان کا بن جانا اور اس کا قائم رہنا ایک معجزہ تھا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو یقین تھا کہ پاکستان کی بقا بحیثیت ایک آزاد اور خودمختار ملک کے ممکن نہیں ہے‘ اس لیے یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ ملک نہ صرف قائم رہا بلکہ 1965ء کی جنگ جیسی بڑی بڑی آزمائشوں سے بھی سر خرو ہو کر نکلا۔ اس لیے کہ ہم نے اس ملک کو حاصل کیا تھا اسلام کے نام پر کہ اسے اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنائیں گے‘ تاکہ پوری دنیا اسلامی نظام کے عملی نمونے اور اس کی برکات کا مشاہدہ کر سکے۔ قائد اعظم نے بھی فرمایا تھا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ ہم عہد حاضر میں اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں، لیکن عملی طور پرآج ہمارا طرزِ عمل ’’فَانْسَلَخَ مِنْہَا‘‘ کی عبرتناک تصویر بن چکا ہے۔ ہم ان تمام وعدوں سے پیچھا چھڑا کر نکل بھاگے اور شیطان کی پیروی اختیار کی۔ پھر ہمارا جو حال ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے وہ سامنے رکھیں اور اس پس منظر میں اس آیت کو دوبارہ پڑھیں۔

            فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَـعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ:  ’’سو(اے نبی!) آپ یہ واقعات سنا دیجیے‘ شاید کہ یہ تفکر کریں۔‘‘ 

UP
X
<>