May 7, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 179

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ 

اور ہم نے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کیلئے پیدا کئے۔ اُن کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، اُن کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور اُن کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ۔ وہ لو گ چوپایوں کی طرح ہیں ، بلکہ وہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

آیت 179:  وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ:  ’’اور ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں بہت سے جن اور انسان۔‘‘

            لَہُمْ قُـلُوْبٌ لاَّ یَـفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُـبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا:  ’’ان کے دل تو ہیں لیکن ان سے غور نہیں کرتے‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔‘‘

            اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ:  ’’یہ چوپایوں کی مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں۔‘‘

            یعنی جب انسان ہدایت سے منہ موڑتا ہے اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے تو نتیجتاً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ان کے دل تفقہ سے یکسر خالی ہو جاتے ہیں، اُن کی آنکھیں انسانی آنکھیں نہیں رہتیں اور نہ اُن کے کان انسانی کان رہتے ہیں۔ اب اُن کا دیکھنا حیوانوں جیسا دیکھنا رہ جاتا ہے اور اُن کا سننا حیوانوں جیسا سننا۔ جیسے کتا بھی دیکھ لیتا ہے کہ گاڑی آ رہی ہے مجھے اس سے بچنا ہے۔ جبکہ انسانی دیکھنا تو یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو دیکھے، اس کی حقیقت کو سمجھے اور پھر درست نتائج اخذ کرے۔ اسی فلسفے کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

 اے   اہل  نظر ذوقِ  نظر  خوب  ہے  لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!

            چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں  ع ’’دیدن دگر آموز‘ شنیدن دگر آموز!‘‘ یعنی دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو‘ دوسری طرح کا سننا سیکھو! وہ دیکھنا جو دل کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ سننا جو دل سے سنا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر ہو گئی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے گئے تو اب ان کا حال یہ ہے کہ یہ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔

            ایسے لوگوں کو چوپایوں سے بد تر اس لیے کہا گیا ہے کہ چوپایوں کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی کم تر سطح پر کیا ہے‘ جبکہ انسان کا تخلیقی مقام بہت اعلیٰ ہے‘ لیکن جب انسان اس اعلیٰ مقام سے گرتا ہے تو پھر وہ نہ صرف شرفِ انسانیت کو کھو دیتا ہے بلکہ جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔ یہی مضمون ہے جو سورۃ التین میں اس طرح بیان ہوا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ  ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ.  یعنی انسان کو پیدا کیا گیا بہترین اندازے پر بلند ترین سطح پر‘ یہاں تک کہ اپنے تخلیقی معیار کے مطابق وہ مسجودِ ملائک ٹھہرا‘ لیکن جب وہ اس مقام سے نیچے گرا تو کم ترین سطح کی مخلوق سے بھی کم ترین ہو گیا۔ پھر اس کی زندگی محض حیوانی زندگی بن کر رہ گئی، حیوانوں کی طرح کھایا پیا‘ دنیا کی لذتیں حاصل کیں اور مر گیا۔ نہ زندگی کے مقصد کا ادراک، نہ اپنے خالق و مالک کی پہچان، نہ اللہ کے سامنے حاضری کا ڈر اور نہ آخرت میں احتساب کی فکر۔ یہ وہ انسانی زندگی ہے جو انسان کے لیے باعث شرم ہے۔ بقولِ سعدی شیرازی:

زندگی آمد برائے بندگی       زندگی بے بندگی شر مندگی!

UP
X
<>