May 7, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 180

وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُواْ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَآئِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ 

اور اسمائے حسنیٰ (اچھے اچھے نام) اﷲ ہی کے ہیں ۔ لہٰذا اُس کو انہی ناموں سے پکارو، اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اُس کے ناموں میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں ، اُس کا بدلہ اُنہیں دیا جائے گا

آیت 180:  وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا:  ’’اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو پکارو اُسے اُن (اچھے ناموں) سے۔‘‘

            اللہ تعالیٰ کی صفات کے اعتبار سے اس کے بے شمار نا م ہیں۔ ان میں سے کچھ قرآن میں آئے ہیں اور کچھ احادیث میں۔ ایک حدیث جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے، اس میں حضوراکرم نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام گنوائے ہیں۔ ان ناموں میں ’’اللہ‘‘ سب سے بڑا اور اہم ترین نام ہے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب نام اچھے ہیں، ان ناموں کے حوالے سے اُس کو پکارا کرو‘ ان ناموں کے ذریعے سے دعا کیا کرو۔ جیسے یا سَتَّارُ‘ یَا غَفَّارُ‘ یَا کَرِیْمُ‘ یَا عَلِیْمُ۔ ضمنی طور پر یہاں ایک نکتہ نوٹ کر لیں کہ قرآن مجید میں اللہ کے لیے لفظ ’’صفت‘‘ کہیں استعمال نہیں ہوا‘ البتہ حدیث میں یہ لفظ آیا ہے۔ قرآن میں اللہ کے لیے اس حوالے سے اسماء (نام) کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے۔

            وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہ:  ’’اور چھوڑ دو ان لوگوں کوجو اس کے ناموں میں کجی نکالتے ہیں۔‘‘

            «لحد» کہتے ہیں ٹیڑھ کو۔ «لحد» بمعنی قبر کا مفہوم یہ ہے کہ قبر کے لیے ایک سیدھا گڑھا کھود کر اس کے اندر ایک بغلی گڑھا کھودا جاتا ہے۔ اس گڑھے کو سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے ’’لحد‘‘ کہتے ہیں۔ اسمائے الٰہی کے سلسلے میں ’الحاد‘ ایک تو یہ ہے کہ ان کا غلط استعمال کیا جائے۔ اللہ کے ہر نام کی اپنی تاثیر ہے‘ اس لحاظ سے مراقبوں وغیرہ کے ذریعے سے اللہ کے ناموں کی تاثیر سے کسی کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام جوڑوں کی شکل میں ہیں، کسی صفت کے دو رُخ ہیں تو اس صفت سے نام بھی دو ہوں گے‘ جیسے اَلْمُعِزُّ اور اَلْمُذِلُّ‘ اَلرَّافِـعُ اور اَلْخَافِضُ‘ اَلْـحَیُّ اور اَلْمُمِیْتُ وغیرہ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء اس طرح کے جوڑوں کی شکل میں ہیں ان میں سے اگر ایک ہی نام بار بار پکارا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے تو یہ بھی الحاد ہو گا۔ مثلاً اَلْمُعِزُّ اور اَلْمُذِلُّ دو نام ایک جوڑے میں ہیں، یعنی وہی عزت دینے والا اوروہی ذلت دینے والا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یَا مُذِلُّ‘ یَا مُذِلُّ، یَا مُذِلُّ کا ورد شروع کر دے تو یہ الحاد ہو جائے گا۔ کیونکہ ’’اے ذلیل کرنے والے! اے ذلیل کرنے والے!‘‘ مناسب ورد نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے تمام نام جب پکارے جائیں تو ہمیشہ جوڑوں ہی کی صورت میں پکارے جائیں۔

            سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ:  ’’عنقریب وہ بدلہ پائیں گے اپنے اعمال کا۔‘‘ 

UP
X
<>