May 1, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 40

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ 

 (لوگو !) یقین رکھو کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور تکبر کے ساتھ اُن سے منہ موڑا ہے، اُن کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اور وہ جنت میں اُس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک کوئی اونٹ ایک سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوجاتا، اور اسی طرح ہم مجرموں کو اُن کے کئے کا بدلہ دیا کرتے ہیں

آیت 40:   اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ:  ’’یقینا جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کی بنا پر ان کو رد کیا‘ ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی نہیں کھولے جائیں گے‘‘

            اگرچہ یہ بات حتمیت سے نہیں کہی جا سکتی‘ تاہم قرآن مجید میں کچھ اس طرح کے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم اِسی زمین پر برپا ہو گی اور ابتدائی نُزُل (مہمانی ) والی جنت بھی یہیں پر بسائی جائے گی۔ وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ.  (الانشقاق ) کی عملی کیفیت کو ذہن میں لانے سے یہ نقشہ تصور میں یوں آتا ہے کہ زمین کو جب کھینچا جائے گا تو یہ پچک جائے گی‘ جیسے ربڑ کی گیند کو کھینچا جائے تو وہ اندر کو پچک جاتی ہے۔ اس عمل میں زمین کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا جو جہنم کی شکل اختیار کر لے گا (واللہ اعلم)۔ احادیث میں مذکور ہے کہ روزِ محشر میدانِ عرفات کو کھول کر وسیع کر دیا جائے گا اور یہیں پر حشر ہو گا۔ قرآن حکیم میں وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا.  (الفجر) کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پروردگار شانِ اجلال کے ساتھ نزول فرمائیں گے، فرشتے بھی فوج در فوج آئیں گے اور یہیں پر حساب کتاب ہو گا۔ گویا ’’قصہ ٔزمین برسرزمین‘‘ والا معاملہ ہو گا۔ اہل بہشت کی ابتدائی مہمان نوازی بھی یہیں ہوگی‘ لیکن پھر اہل جنت اپنے مراتب کے اعتبار سے درجہ بدرجہ اوپر کی جنتوں میں چڑھتے چلے جائیں گے‘ جبکہ اہل جہنم یہیں کہیں رہ جائیں گے‘ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے۔

            وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ:  ’’اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے گزر جائے۔‘‘

            اسے کہتے ہیں ’’تعلیق بالمحال‘‘۔ نہ یہ ممکن ہو گا کہ سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ گزر جائے اور نہ ہی کفار کے لیے جنت میں داخل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔ بالکل یہی محاورہ حضرت عیسیٰ نے بھی ایک جگہ استعمال کیا ہے۔ آپ کے پاس ایک دولت مند شخص آیا اور پوچھا کہ آپ کی تعلیمات کیا ہیں؟ جواب میں آپ نے نماز پڑھنے‘ روزہ رکھنے‘ غریبوں پر مال خرچ کرنے اور دوسرے نیک کاموں کے بارے میں بتایا۔ اس شخص نے کہا کہ نیکی کے یہ کام تو میں سب کرتا ہوں ، آپ بتایئے اور میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم نے یہ ساری منزلیں طے کر لی ہیں تو اب آخری منزل یہ ہے کہ اپنی صلیب اٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو! یعنی حق و باطل کی کشمکش میں جان و مال سے میرا ساتھ دو۔ یہ سن کر اس شخص کا چہرہ لٹک گیا اور وہ چلا گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ممکن ہے مگر کسی دولت مند شخص کا اللہ کی بادشاہت میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ واقعہ قرآن میں مذکور محاورے کے حوالے سے بر سبیل تذکرہ آ گیا ہے، حضرت عیسی کے اس فرمان کو کسی معاملے میں بطورِ دلیل پیش کرنا مقصود نہیں۔

            وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ:  ’’اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو۔‘‘ 

UP
X
<>