May 8, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 43

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ وَقَالُواْ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُواْ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ 

اور اُن کے سینوں میں (ایک دوسرے سے دنیا میں ) جو کوئی رنجش رہی ہوگی، اُسے ہم نکال باہر کریں گے۔ اُن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ کہیں گے : ’’ تمام تر شکر اﷲ کا ہے، جس نے ہمیں اِس منزل تک پہنچایا۔ اگر اﷲ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے۔ ‘‘ اور اُن سے پکار کر کہا جائے گا کہ : ’’ لوگو ! یہ ہے جنت تم جو عمل کرتے رہے ہوان کی بناپرتمہیں اس کا وارث بنا دیا گیا ہے

آیت 43:  وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ:  ’’اور ہم نکال دیں گے جو کچھ ان کے سینوں میں ہو گا (ایک دوسرے کی طرف سے) کوئی میل‘‘

            اہل ِایمان بھی آخر انسان ہیں۔ باہمی معاملات میں ان کو بھی ایک دوسرے سے گلے اور شکوے ہو سکتے ہیں اور دلوں میں شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے اندر بھی کسی مامور کو امیر سے، امیر کو مامور سے یا ایک رفیق کو دوسرے رفیق سے شکایت ہو سکتی ہے۔ کچھ ایسے گلے شکوے بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کی زندگی میں ختم نہ ہو سکے ہوں گے۔ ایسے گلے شکووں کے ضمن میں قرآن حکیم میں کئی مرتبہ فرمایا گیا کہ اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کے دلوں کو ایسی تمام آلائشوں سے پاک کر دیا جائے گا اور وہ لوگ باہم بھائی بھائی بن کر ایک دوسرے کے رو برو بیٹھیں گے: وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ. (الحجر) اسی لیے اہل ایمان کو سورۃ الحشر میں یہ دعا بھی تلقین کی گئی ہے: رَبَّـنَا اغْفِرْ لَـنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّـنَـآ اِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ.  ’’ اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے اور ہمارے اُن بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے، بے شک تو رؤف اور رحیم ہے‘‘۔ ان مضامین کی آیات کے بارے میں حضرت علی کا یہ قول بھی (خاص طور پر سورۃ الحجر‘ آیت: 47 کے شانِ نزول میں) منقول ہے کہ یہ میرا اور معاویہ کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل کرے گا تو دلوں سے تمام کدورتیں صاف کر دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ  کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں تو کتنی کچھ شکایتیں باہمی طور پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ ایسی تمام شکایتیں اور کدورتیں وہاں دور کر دی جائیں گی۔

            تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ: ’’اور اُن (کے بالا خانوں) کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔‘‘

            وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰٹَنا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُج لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ: ’’ اور وہ کہیں گے کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچادیا‘ اور ہم یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔ یقینا ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے۔‘‘

            وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: ’’اور (تب) انہیں پکارا جائے گا کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث بنا دیے گئے ہو اپنے اعمال کی وجہ سے۔‘‘

            بندے کا مقامِ عبدیت اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اللہ کے انعام و اکرام پر سراپا شکر بن کر پکار اٹھے کہ اے اللہ میں اس لائق نہیں تھا، میرے اعمال ایسے نہیں تھے‘ میں اپنی کوشش کی بنیاد پر کبھی بھی اس کا مستحق نہیں ہو سکتا تھا، یہ سارا تیرا فضل و کرم، تیری عطا اورتیری دین ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ بندے کے حسن نیت اور اعمالِ صالحہ کی قدرافزائی کرتے ہوئے ارشاد فرمائے گا کہ میرے بندے، تو نے دنیا میں جومحنت کی تھی‘ یہ مقام تیری محنت کا انعام ہے‘ تیری کوشش کا ثمر ہے‘ تیرے ایثار کا صلہ ہے۔ تو نے خلوصِ نیت سے حق کا راستہ چنا تھا، اس میں تو نے نقصان بھی برداشت کیا‘ باطل کا مقابلہ کرنے میں تکالیف بھی اٹھائیں۔ چنانچہ بندے کی کوشش و محنت اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دونوں چیزیں مل کر ہی بندے کی دائمی فلاح کو ممکن بناتی ہیں۔ ہم ایک نیک کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نیت کے خلوص کو دیکھتے ہوئے اس کام کی توفیق دے دیتا ہے اور اسے ہمارے لیے آسان کر دیتا ہے۔ اگر ہم ارادہ ہی نہیں کریں گے تو اللہ کی طرف سے توفیق بھی نہیں ملے گی۔ اسی طرح اللہ کی توفیق وتیسیر کے بغیر محض ارادے سے بھی ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ 

UP
X
<>