May 4, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْموْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ 

اور وہی (اﷲ) ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) کے آگے آگے ہوا ئیں بھیجتا ہے جو (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کواٹھا لیتی ہیں ، تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہنکا لے جاتے ہیں ، پھر وہاں پانی برساتے ہیں ، اور اُس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ کر کے نکالیں گے۔ شاید (ان باتوں پر غور کر کے) تم سبق حاصل کرلو

آیت 57:  وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہ: ’’اور وہی ہے جو بھیجتا ہے ہوائیں بشارت دیتی ہوئی، اس کی رحمت کے آگے آگے۔‘‘

            یعنی ابر رحمت سے پہلے ہواؤں کے ٹھنڈے جھونکے گویا بشارت دے رہے ہوتے ہیں کہ بارش آنے والی ہے۔ اس کیفیت کا صحیح ادراک کرنے کے لیے کسی ایسے خطے کا تصور کیجیے جہاں زمین مردہ اور بے آب و گیاہ پڑی ہے، لوگ آسمان کی طرف نظریں لگائے بارش کے منتظر ہیں۔ اگر وقت پر بارش نہ ہوئی تو بیج اور محنت دونوں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جب بارانِ رحمت کی نوید سناتے ہیں تو وہاں کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی بشارت اور کیا ہو گی۔

            حَتّٰیٓ اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً: ’’یہاں تک کہ وہ ہوائیں اٹھا لاتی ہیں بڑے بڑے بھاری بادل‘‘

            یہ بادل کس قدر بھاری ہوتے ہوں گے، ان کا وزن انسانی حساب و شمار میں آنا ممکن نہیں۔ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کے سبب لاکھوں ٹن پانی کو ہوائیں روئی کے گالوں کی طرح اڑائے پھرتی ہیں۔

            سُقْنٰـہُ لِبَلَدٍ مَّـیِّتٍ: ’’تو ہم ہانک دیتے ہیں اس (بادل) کو ایک مردہ زمین کی طرف‘‘

            ہوائیں ہمارے حکم سے اس بادل کو کسی بے آب وگیاہ وادی کی طرف لے جاتی ہیں اور بارانِ رحمت اس وادی میں ایک نئی زندگی کی نوید ثابت ہوتی ہے۔

            فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءِ فَاَخْرَجْنَا بِہ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ: ’’پھر ہم اس سے پانی برساتے ہیں اور پھر اس سے ہر طرح کے میوے نکال لاتے ہیں۔‘‘

            بارش کے بعد وہ خشک اور مردہ زمین گھاس‘ فصلوں اور پھلدار پودوں کی روئیدگی کی شکل میں اپنے خزانے اُگل دیتی ہے۔

            کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْموْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ: ’’ اسی طرح ہم مردوں کو نکال لائیں گے (زمین سے) تا کہ تم نصیحت اخذ کرو۔‘‘

            دراصل بادلوں اور ہواؤں کے مظاہر کی تفصیل بیان کر کے ایک عام ذہن کو تشبیہ کے ذریعے سے بعث بعد الموت کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی مردہ زمین کو دیکھو! اس کے اندر زندگی کے کچھ بھی آثار باقی نہیں رہے تھے‘ حشرات الارض اور پرندے تک وہاں نظر نہیں آتے تھے‘ اس زمین کے باسی بھی مایوس ہو چکے تھے‘ لیکن اس مردہ زمین پر جب بارش ہوئی تو یکا یک اس میں زندگی پھر سے عود کر آئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ع  ’’مگر اب زندگی ہی زندگی ہے موجزن ساقی!‘‘ کی مجسم تصویر بن گئی۔ بنجر زمین ہریالی کی سبز پوشاک پہن کر دلہن کی طرح سج گئی۔ حشرات الارض کا اژدہام! پرندوں کی زمزمہ پردازیاں! اس کے باسیوں کی رونقیں! گویا بارش کے طفیل زندگی پوری چہل پہل کے ساتھ وہاں جلوہ گر ہو گئی۔ اس آسان تشبیہ سے ایک عام ذہنی استعداد رکھنے والے انسان کو حیات بعد الموت کی کیفیت آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ زمین کے اندر پڑے ہوئے مردے بھی گویا بیجوں کی مانند ہیں۔ جب اللہ کا حکم آئے گا، یہ بھی نباتات کی مانند پھوٹ کر باہر نکل آئیں گے۔ 

UP
X
<>