May 5, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 59

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ 

ہم نے نوح کو اُن کی قوم کے پاس بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے کہا : ’’ اے میری قوم کے لوگو ! اﷲ کی عبادت کرو۔ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ یقین جانو مجھے سخت اندیشہ ہے کہ تم پر ایک زبردست دن کا عذاب نہ آکھڑا ہو۔ ‘‘

            اس رکوع سے التذکیر بِاَیَّامِ اللّٰہ کے اس سلسلے کا آغاز ہو رہا ہے جسے قبل ازیں اس سورت کے مضامین کا ’’عمود‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلے کا بہت بڑا حصہ ’’انباء الرّسل‘‘ پر مشتمل ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں نبیوں کا ذکر آتا ہے تو اس کا مقصد ان کی سیرت کے روشن پہلوؤں مثلاً ان کا مقام‘ تقویٰ اور استقامت وغیرہ کو نمایاں کرنا ہوتا ہے‘ جبکہ رسولوں کا ذکر بالکل مختلف انداز میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی رسول آیا تو وہ کسی قوم کی طرف بھیجا گیا‘ لہٰذا قرآن مجید میں رسول کے ذکر کے ساتھ لازماً متعلقہ قوم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پھر رسول کی دعوت کے جواب میں اس قوم کے رویے اور ردِّ عمل کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی قسم کے واقعات کو ’’قصص الانبیاء‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال سورہ یوسف ہے‘ جس میں حضرت یوسف کے حالات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں، مگر کہیں بھی آپ کی طرف سے اس نوعیت کے اعلان کا ذکر نہیں ملتا کہ لوگو! مجھ پر ایمان لاؤ‘ میری بات مانو، ورنہ تم پر عذاب آئے گا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے کہ اس قوم نے آپ کی دعوت کو ردّ کر دیا اور پھر ان پر عذاب آ گیا اور اُنہیں ہلاک کر دیا گیا۔

            دوسری قسم کے واقعات کے لیے ’’انباء الرسل‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ (’’انباء‘‘ جمع ہے ’’نبأ‘‘ کی‘ جس کے معنی خبر کے ہیں، یعنی رسولوں کی خبریں۔) اِن واقعات سے ایک اصول واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف آیا تو وہ اللہ کی عدالت بن کر آیا۔ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو مان لیا وہ اہل ایمان ٹھہرے اور عافیت میں رہے‘ جبکہ انکار کرنے والے ہلاک کر دیے گئے۔ انباء الرسل کے سلسلے میں عام طور پر چھ رسولوں کے حالات قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رسول صرف چھ ہیں، بلکہ یہ چھ رسول وہ ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔ یہ تمام رسول اسی جزیرہ نمائے عرب کے اندر آئے۔ یہ رسول جن علاقوں میں مبعوث ہوئے اُن کے بارے میں جاننے کے لیے جزیرہ نمائے عرب (Arabian Peninsula) کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھیے۔ نیچے جنوب کی طرف سے اس کی چوڑائی کافی زیادہ ہے‘ جبکہ یہ چوڑائی اوپر شمال کی طرف کم ہوتی جاتی ہے۔ اس جزیرہ نما علاقہ کے مشرقی جانب خلیج فارس (Persian Gulf) ہے جب کہ مغربی جانب بحیرۂ احمر (Read Sea) ہے جو شمال میں جا کر دو کھاڑیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ان میں سے ایک (شمال مغرب کی طرف) خلیج سویز ہے اور دوسری طرف (شمال مشرق کی جانب) خلیج عقبہ۔ خلیج عقبہ کے اوپر (شمال) والے کونے سے خلیج فارس کے شمالی کنارے کی طرف سیدھی لائن لگائیں تو نقشے پر ایک مثلث (triangle) بن جاتی ہے‘ جس کا قاعدہ (base) نیچے جنوب میں یمن سے سلطنت ِعمان تک ہے اور اوپر والا کونہ شمال میں بحیرہ مردار (Dead Sea) کے علاقے میں واقع ہے۔

            موجودہ دُنیا کے نقشے کے مطابق اس مثلث میں سعودی عرب کے علاوہ عراق اور شام کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ مثلث اس علاقے پر محیط ہے جہاں عرب کی قدیم قومیں آباد تھیں اور یہی وہ قومیں تھیں جن کی طرف وہ چھ رسول مبعوث ہوئے تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ ان میں سے جو رسول سب سے پہلے آئے وہ حضرت نوح تھے۔ آپ کے زمانے کے بارے میں یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن مختلف اندازوں کے مطابق آپ کا زمانہ حضرت آدم سے کوئی دو ہزار سال بعد کا زمانہ بتایا جاتا ہے (واللہ اعلم)۔ اُس وقت تک کل نسل ِانسانی بس اسی علاقے میں آباد تھی۔ جب آپ کی قوم آپ کی دعوت پر ایمان نہ لائی تو پانی کے عذاب سے انہیں تباہ کر دیا گیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں وہ تباہ کن سیلاب آیا تھا جو’’طوفانِ نوح‘‘ سے موسوم ہے اور یہیں کوہِ جودی میں اَرارات کی وہ پہاڑی ہے جہاں حضرت نوح کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ پھر حضرت نوح کے تین بیٹوں سے دوبارہ نسلِ انسانی چلی۔ آپ کا ایک بیٹا جس کا نام سام تھا‘ اس کی نسل جنوب میں عراق کی طرف پھیلی۔ اس نسل سے جو قومیں وجود میں آئیں انہیں سامی قومیں کہا جاتا ہے۔ انہی قوموں میں ایک قوم عاد تھی‘ جو جزیرہ نمائے عرب کے بالکل جنوب میں آباد تھی۔ آج کل یہ علاقہ بڑا خطرناک قسم کا ریگستان ہے، لیکن اُس زمانے میں قوم ِ عاد کا مسکن یہ علاقہ بہت سرسبز و شاداب تھا۔ اس قوم کی طرف حضرت ہود کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ کی دعوت کو اس قوم نے رد کیا تو یہ بھی ہلاک کر دی گئی۔ اس قوم کے بچے کھچے لوگ اور حضرت ہود وہاں سے نقل مکانی کر کے مذکورہ مثلث کی مغربی سمت جزیرہ نما ئے عرب کے شمال مشرقی کونے میں خلیج عقبہ سے نیچے مغربی ساحل کے علاقے میں جا آباد ہوئے۔ ان لوگوں کی نسل کو قومِ ثمود کے نام سے جانا جاتا ہے۔

            قومِ ثمود کی طرف حضرت صالح کو بھیجا گیا۔ اس قوم نے بھی اپنے رسول کی دعوت کو رد کردیا‘ جس پر انہیں بھی ہلاک کر دیا گیا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر عالی شان عمارات بنانے میں ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر کھدے ہوئے ان کے محلات اوربڑے بڑے ہال آج بھی موجود ہیں۔ قومِ ثمود کے اس علاقے سے ذرا اوپر خلیج عقبہ کے داہنی طرف مدین کا علاقہ ہے جہاں وہ قوم آباد تھی جن کی طرف حضرت شعیب کو بھیجا گیا۔ مدین کے علاقے سے تھوڑا آگے بحیرہ مردار (Dead Sea) ہے‘ جس کے ساحل پر سدوم اور عامورہ کے شہر آباد تھے۔ ان شہروں میں حضرت لوط کو بھیجا گیا۔ بہرحال یہ ساری اقوام جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے مذکورہ مثلث کے علاقے میں ہی آباد تھیں۔ صرف قومِ فرعون اس مثلث سے باہر مصر میں آباد تھی جہاں حضرت موسیٰ مبعوث ہوئے۔ ان چھ رسولوں کے حالات پڑھنے سے پہلے ان کی قوموں کے علاقوں کا یہ نقشہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے۔ زمانی اعتبار سے حضرت نوح سب سے پہلے رسول ہیں، پھر حضرت ہود‘ پھر حضرت صالح‘ پھر حضرت ابراہیم۔ لیکن حضرت ابراہیم کا ذکر قرآن میں انباء الرسل کے انداز میں نہیں بلکہ قصص الانبیاء کے طور پر آیا ہے۔ آپ کے بھتیجے حضرت لوط کو سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا۔

            حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا‘ جن کی اولاد میں حضرت شعیب کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل حجاز (مکہ) میں آباد ہوئے اور پھر حجاز میں ہی نبی آخر الزماں کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق تھے جن کوآپ نے فلسطین میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب تھے جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی۔ قرآن حکیم میں جب ہم انبیاء ورُسل کے تذکرے پڑھتے ہیں تو یہ ساری تفصیلات ذہن میں ہونی چاہئیں۔

آیت 59:   لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ:  ’’ہم نے بھیجا تھا نوح کو اُس کی قوم کی طرف تو اُس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے‘ مجھے تمہارے بارے میں اندیشہ ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا۔‘‘

            یعنی مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم لوگ یوں ہی مشرکانہ افعال اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے رہو گے تو بہت بڑے عذاب میں پکڑے جاؤ گے۔

UP
X
<>