May 18, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 79

فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ 

اس موقع پر صالح ان سے منہ موڑ کرچل دیئے، اور کہنے لگے : ’’ اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا، اور تمہاری خیر خواہی کی، مگر (افسوس کہ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ ‘‘

آیت 79:  فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰــقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُـکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَـکُمْ وَلٰــکِنْ لاَّ تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ:  ’’تو (صالح نے) ان سے پیٹھ موڑ لی اور کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! میں نے تو تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور میں نے (امکان بھر) تمہاری خیر خواہی کی‘ لیکن تم تو خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

            اس کے بعد حضرت لوط کا ذکر آ رہا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے۔ آپ عراق کے رہنے والے تھے اور سامی النسل تھے۔ آپ نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کو رسالت سے سرفراز فرما کر سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ دونوں شہر بحیرہ مردار (Dead Sea) کے کنارے اس زمانے کے دو بڑے اہم تجارتی مراکز تھے۔ اس زمانے میں جو تجارتی قافلے ایران اور عراق کے راستے مشرق سے مغرب کی طرف جاتے تھے وہ فلسطین اور مصر کو جاتے ہوئے سدوم اور عامورہ کے شہروں سے ہو کر گزرتے تھے۔ اس اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے ان شہروں میں بڑی خوشحالی تھی۔ مگر ان لوگوں میں مردوں کے آپس میں جنسی اختلاط کی خباثت پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔

            حضرت لوط اس قوم میں سے نہیں تھے۔ سورۃ العنکبوت (آیت: 26) میں ہمیں آپ کی ہجرت کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ان شہروں کی طرف مبعوث ہو کر عراق سے آئے تھے۔ یہاں پر یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح کا زمانہ حضرت ابراہیم سے پہلے کا ہے، جبکہ حضرت لوط حضرت ابراہیم کے ہم عصر تھے۔ یہاں حضرت ابراہیم سے پہلے کے زمانے کے تین رسولوں کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر حضرت ابراہیم کو چھوڑ کر حضرت لوط کا ذکر شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک خاص اسلوب سے انباء الرّسل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یعنی ان رسولوں کا تذکرہ جو اللہ کی عدالت بن کر قوموں کی طرف آئے اور ان کے انکار کے بعد وہ قومیں تباہ کر دی گئیں۔ چونکہ حضرت ابراہیم کے ضمن میں اس نوعیت کی کوئی تفصیل صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں ملتی اس لیے آپ کا ذکر قصص النبیین کے ذیل میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا تذکرہ سورۃ الاعراف کے بجائے سورۃ الانعام میں کیا گیا ہے اور وہاں یہ تذکرہ قصص النبیین ہی کے انداز میں ہوا ہے‘جبکہ سورۃ الاعراف میں تمام انباء الرّسل کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ انباء الرسل اور قصص النبیین کی تقسیم کے اندر یہ ایک منطقی ربط ہے۔ 

UP
X
<>