May 18, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 85

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ 

اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا : ’’ اے میری قوم کے لوگو ! اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے۔ لہٰذا ناپ تول پور اپوراکیا کرو، اور جو چیزیں لوگوں کی ملکیت میں ہیں ، اُن میں اُن کی حق تلقی نہ کرو۔ اور زمین میں اُس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔ لوگو ! یہی طریقہ تمہارے لئے بھلائی کا ہے، اگر تم میری بات مان لو

آیت 85:  وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا:  ’’اور قومِ مدین کی طرف (ہم نے بھیجا) ان کے بھائی شعیب کو۔‘‘

            حضرت شعیب کا تعلق اسی قوم سے تھا‘ اس لیے آپ کو ان کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت ابراہیم کی تیسری بیوی کا نام «قطورا» تھا۔ ان سے آپ کے کئی بیٹے ہوئے، جن میں سے ایک کا نام مدین تھا جو اپنی اولاد کے ساتھ خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہو گئے تھے۔ یہ علاقہ ان لوگوں کی وجہ سے بعد میں ’’مدین‘‘ ہی کے نام سے معروف ہوا۔ مدین کا علاقہ بھی اس زمانے کی بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا۔ یہ شاہراہ شمالاً جنوباً فلسطین سے یمن کو جاتی تھی۔ اس لحاظ سے اہل ِمدین بہت خوشحال لوگ تھے۔ نتیجتاً ان میں بہت سی کاروباری اور تجارتی بد عنوانیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ لہٰذا ان کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب کو مبعوث کیا گیا۔

            قَالَ یٰــقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَـکُمْ مِّنْ اِلٰـہٍ غَیْرُہ قَدْ جَآءَتْـکُمْ بَـیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ :  ’’اُس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو‘ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اس کے سوا۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی دلیل آ چکی ہے‘‘

            فَاَوْفُواالْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَہُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُـنْـتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ:  ’’تو ماپ اور تول پورا کیا کرواور لوگوں سے ان کی چیزیں کم نہ کیا کرو‘ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت مچاؤ‘ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مؤمن ہو۔‘‘

            اہل مدین چونکہ کاروباری لوگ تھے لہٰذا ان کے ہاں جو خاص خرابی اجتماعی طور پر پیدا ہو گئی تھی وہ ماپ تول میں کمی کی عادت تھی۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم سے قبل زمانہ کی جن تین اقوام کا ذکر قرآن میں آیا ہے‘ یعنی قومِ نوح‘ قومِ ہود اور قومِ صالح ان میں سوائے شرک کے اور کسی خرابی کی تفصیل نہیں ملتی۔ یعنی اُس زمانے تک انسانی تمدن اتنا سادہ تھا کہ ابھی اعمال کی خرابیاں اور گندگیاں رائج نہیں ہوئی تھیں۔ تب تک انسان فطرت کے زیادہ قریب تھا، اس لیے وہ پیچیدگیاں جو تمدن کے پھیلنے کے ساتھ بڑھتی ہیں اور وہ بد عنوانیاں جو اس پیچیدہ زندگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں وہ ابھی ان اقوام کے افراد میں پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جنسی برائیاں سب سے پہلے قومِ لوط میں اور مالی بدعنوانیاں سب سے پہلے اہل مدین میں پیدا ہوئیں۔ 

UP
X
<>