May 8, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 107

وَالَّذِينَ اتَّخَذُواْ مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ وَلَيَحْلِفَنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ 

اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس کام کیلئے بنائی ہے کہ (مسلمانوں کو) نقصان پہنچائیں ، کافرانہ باتیں کریں ، مومنوں میں پھوٹ ڈالیں اور اُس شخص کو ایک اَڈّہ فراہم کریں جس کی پہلے سے اﷲ اور اُس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے۔ اور یہ قسمیں ضرور کھالیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کوئی اور نیت نہیں ہے، لیکن اﷲ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں

 آیت ۱۰۷: وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہ مِنْ قَـبْلُ: ‘‘اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی ہے ضرر (نقصان) اور کفر کے لیے اور اہل ایمان میں تفریق پیدا کرنے کے لیے اور ان لوگوں کو گھات فراہم کرنے کے لیے جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں۔‘‘

            ضِرَارًا بابِ مفاعلہ ہے‘ یعنی انہوں نے مسجد بنائی ہے ضدم ضدا‘ مقابلے میں اوردعوتِ حق کو نقصان پہنچانے کے لیے۔ یہ مسجد منافقین نے مسجد قبا کے قریبی علاقے میں بنائی تھی۔ اس کی تعمیر کے پیچھے ابو عامر راہب کا ہا تھ تھا۔ اس شخص کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ وہ زمانۂ جاہلیت میں عیسائیت قبول کر کے راہب بن گیا تھا اور عرب میں اہل کتاب کے بہت بڑے عالم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جیسا کہ ورقہ بن نوفل‘ جو قرشی تھے اور انہوں نے بھی بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی‘ اور اپنے زمانے کے اتنے بڑے عالم تھے کہ تورات عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ وہ بہت نیک اور سلیم الفطرت انسان تھے۔ جب حضرت خدیجہ  حضور کو لے کر اُن کے پاس گئیں تو انہوں نے آپ کی تصدیق کی اور بتایا کہ آپ کے پاس وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ  کے پاس آتا تھا۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی۔ حضور نے جب حیرت سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہاں! معاملہ ایسا ہی ہے‘ آپ کی دعوت کے نتیجے میں آپ کی قوم آپ کی دشمن بن جائے گی۔

            مگر ابو عامر راہب کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ وہ رسول اللہ کا شدید ترین دشمن بن گیا۔ قریش مکہ کی بدر میں شکست کے بعد یہ شخص مکہ میں جا کر آباد ہو گیا ور اہل مکہ کو حضور اورمسلمانوں کے خلاف اُکساتا رہا۔ چنانچہ غزوہ ٔ اُحد کے پیچھے بھی اسی شخص کی سازشیں کار فرما تھیں‘ بلکہ میدانِ اُحد میں جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو اس نے لشکر سے باہر نکل کر انصارِ مدینہ کو خطاب کر کے انہیں ورغلانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس کے بعد بھی تمام جنگوں میں یہ مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہا‘ مگر حنین کی جنگ کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی تووہ مایوس ہو کر شام چلا گیا اور وہاں جا کر بھی مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ اس کے لیے اس نے منافقین مدینہ کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور اسی کے کہنے پر منافقین نے مسجد ِضرار تعمیر کی جو نام کو تو مسجد تھی مگر حقیقت میں سازشی عناصر کی کمین گاہ اور فتنے کا ایک مرکز تھی۔

            وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلاَّ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ: ‘‘اور وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم نے تو نیکی ہی کا ارادہ کیا تھا‘ مگرا للہ گواہی دیتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں۔‘‘

            اب جواب طلبی پر یہ منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہماری کوئی بری نیت نہیں تھی‘ ہمارا ارادہ تو نیکی اور بھلائی ہی کا تھا‘ اصل میں دوسری مسجد ذرا دور پڑتی تھی جس کی وجہ سے ہم تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے تھے‘ اس لیے ہم نے سوچا کہ اپنے محلے میں ایک مسجد بنا لیں تا کہ تمام نمازیں آسانی سے باجماعت ادا کر سکیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ 

UP
X
<>