May 4, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 111

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

واقعہ یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس بات کے بدلے خرید لئے ہیں کہ جنت اُنہی کی ہے۔ وہ اﷲ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں ، اور مرتے بھی ہیں ۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اﷲ نے تورات اور اِنجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اﷲ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہٰذا اپنے اُس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اﷲ سے کر لیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے

 آیت ۱۱۱: اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ: ‘‘یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘

            یہ دو طرفہ سودا ہے جو ایک صاحب ِایمان بندے کا اپنے رب کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ بندہ اپنے جان ومال بیچتا ہے اور اللہ اس کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیتا ہے۔

            یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ: ‘‘وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں۔‘‘

            جیسے جنگ بدر میں مسلمانوں نے ستر کافروں کو جہنم رسید کیا‘ اور میدانِ اُحد میں ستر اہل ایمان شہید ہو گئے۔

            وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ: ‘‘یہ وعدہ اللہ کے ذمے ہے سچا‘ تورات‘ انجیل اور قرآن میں۔‘‘

            یہاں بین السطور میں دراصل یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ یہ سودا اگرچہ ادھار کا سودا ہے مگر یہ ایک پختہ عہد ہے جس کو پورا کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں کوئی وسوسہ تمہارے دلوں میں نہ آنے پائے۔ دراصل یہ اس سوچ کا جوا ب ہے جو طبع بشری کی کمزوری کے سبب انسانی ذہن میں آتی ہے۔ انسان کو بنیادی طور پر ‘‘نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ والا فلسفہ ہی اچھا لگتا ہے کہ کامیاب سودا تو وہی ہوتا ہے جو ایک ہاتھ دو اور دوسرے ہاتھ لو کے اصول کے مطابق ہو۔ مگر یہاں تو دُنیوی زندگی میں سب کچھ قربان کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور اس کے انعام کے لیے وعدۂ فردا کا انتظار کرنے کو کہا جا رہا ہے کہ اس قربانی کا انعام مرنے کے بعد آخرت میں ملے گا۔ لہٰذا ایک عام انسان اســ‘‘جنت موعودہ‘‘کا ہلکا سا تصور ہی اپنے ذہن میں لا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں یقین کی پختگی تو صرف خواص کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ اہل ایمان کو ادھار کے اس سودے پر اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس وعدے کی توثیق تین دفعہ ہو چکی ہے‘ تورات میں‘ انجیل میں اور پھر قرآن مجید میں بھی۔

            وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ: ‘‘اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے؟پس خوشیاں مناؤ اپنی اس بیع پر جس کا سودا تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ اور یہی ہے بڑی کامیابی۔‘‘

             بَایَعْتُمْ بِہ: یعنی آپس میں جو سودا تم نے کیا۔ مبایعت بابِ مفاعلہ بَایَعَ یُبَایِعُ (آپس میں سودا کرنا) ثلاثی مجرد بَاعَ یَبِیْعُ (بیچنا) سے ہے۔ یہیں سے لفظ ‘‘بیعت‘‘نکلا ہے۔ ایک بندہ جو بیعت کرتا ہے اس میں وہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہے۔ لہٰذا حضور کے ہاتھ پر صحابہ نے جو بیعت کی‘ اس کا مطلب یہی تھا کہ انہوں نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ اللہ تو چونکہ سامنے موجود نہیں تھا اس لیے بظاہر یہ بیعت حضور کے ہاتھ مبارک پر ہوئی تھی‘ مگر اللہ نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں دراصل وہ اللہ سے ہی بیعت کرتے ہیں اور وقت بیعت ان کے ہاتھوں کے اوپر ایک تیسرا غیر مرئی ہاتھ اللہ کا بھی موجود ہوتا ہے۔ ( الفتح: ۱۰)

             یہ سودا اور یہ بیع جس کا ذکر  آیت زیر نظر میں ہوا ہے ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سودا کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں اور اپنے اموال بیچ دیں۔ اب اس سودے کے اثرات عملی طور پر جب انسانی شخصیت پر مترتب ہوں گے تو اس میں سے اعمالِ صالحہ کا ظہور ہوگا۔ لہٰذا اس کیفیت کا نقشہ آئندہ  آیت میں کھینچا گیا ہے۔ 

UP
X
<>