May 4, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 112

التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ 

 (جنہوں نے یہ کامیاب سودا کیا ہے، وہ کون ہیں ؟) توبہ کرنے والے ! اﷲ کی بندگی کرنے والے ! اُس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! رُکوع میں جھکنے والے ! سجدے گذارنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے ! (اے پیغمبر !) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو

 آیت ۱۱۲: اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ: ‘‘توبہ کرنے والے‘ (اللہ کی) بندگی کرنے والے‘ (اللہ کی) حمد کرنے والے‘ دُنیوی آسائشوں سے لاتعلق رہنے والے‘ رکوع کرنے والے‘ سجدہ کرنے والے‘‘

            «سَائِحُوْنَ» کا معنی ہے ‘‘سیاحت کرنے والے‘‘۔ لیکن اس سے مراد محض سیر و سیاحت نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کے لیے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہونا ہے۔ پچھلی اُمتوں میں روحانی ترقی کے لیے لوگ لذاتِ دنیوی کو ترک کر کے اور انسانی آبادیوں سے لا تعلق ہو کر جنگلوں میں چلے جاتے تھے اور رہبانیت اختیار کر لیتے تھے‘ مگر ہمارے دین میں ایسی سیاحت اور رہبانیت کی اجازت نہیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا: «لاَ رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ وَلَا سِیَاحَۃَ» ‘‘اسلام میں نہ رہبانیت ہے نہ سیاحت‘‘۔ سابقہ ادیان کے برعکس اسلام نے سیاحت اور رہبانیت کا جو تصور متعارف کرایا ہے اس کے لیے ابو امامہ باہلی سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

 «اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ سِیَاحَۃَ وَاِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ وَاِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَہْبَانِیَّۃٌ وَرَھْبَانِیَّۃُ اُمَّتِی الرِّبَاطُ فِیْ نُحُوْرِ الْعَدُوِّ»

‘‘ہر اُمت کے لیے سیاحت کا ایک طریقہ تھا اور میری اُمت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ اور ہر اُمت کی ایک رہبانیت تھی‘ جبکہ میری اُمت کی رہبانیت دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے۔‘‘

ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ‘ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ نے فرمایا:

 «اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ»

گویا ہماری اُمت کے لیے ‘ سیاحت‘ کا اطلاق جہاد وقتال کے لیے گھر سے نکلنے اور اس راستے میں صعوبتیں اٹھانے پر ہو گا۔

            یہ چھ اوصاف جو اوپر گنوائے گئے ہیں ان کا تعلق انسانی شخصیت کے نظریاتی پہلو سے ہے۔ اب اس کے بعد تین ایسی خصوصیات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جوانسان کی عملی جدوجہد سے متعلق ہیں اور دعوت و تحریک کی صورت میں معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

            الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ: ‘‘نیکی کا حکم دینے والے‘ بدی سے روکنے والے‘ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے۔ اور (اے نبی ) آپ ان اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے۔‘‘

            امر بالمعروف گویا دین کے لیے عملی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ جدوجہد جب آگے بڑھ کر نہی عن المنکر بالید کے مرحلے تک پہنچتی ہے تو پھر اِن خدائی فوجداروں کی ضرورت پڑتی ہے جن کو یہاں: وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ.  کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اگر پوری طرح منظم ہوں تو اپنی تنظیمی طاقت کے بل پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اب ہم اپنے معاشرے میں منکرات کا سکہ نہیں چلنے دیں گے اور کسی کو اللہ کی حدود کو توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اللّٰھم رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! منہج انقلابِ نبوی میں اس مرحلے کے ضمن میں آج اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں نہی عن المنکر بالید کے لیے اجتماعی اور منظم جدوجہد کی صورت کیا ہو گی۔ 

UP
X
<>