May 4, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 114

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأوَّاهٌ حَلِيمٌ 

اور ابراہیم نے اپنے باپ کیلئے جو مغفرت کی دعا مانگی تھی، اُس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ اُنہوں نے اُس (باپ) سے ایک وعدہ کر لیا تھا۔ پھر جب اُن پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اﷲ کا دُشمن ہے، تو وہ اُس سے دستبردار ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑی آہیں بھرنے والے، بڑے بردبار تھے

 آیت114: وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ: ‘‘اور نہیں تھا استغفار کرنا ابراہیم کا اپنے والد کے حق میں مگر ایک وعدے کی بنیاد پر جو انہوں نے اس سے کیا تھا۔‘‘

            جب حضرت ابراہیم کے والد نے آپ کو گھر سے نکالا تھا تو جاتے ہوئے آپ نے یہ وعدہ کیا تھا‘ اس وعدے کا ذکر سوره مریم میں اس طرح کیا گیا ہے:  سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہُ کَانَ بِیْ حَفِیًّا.  ‘‘میں اپنے رب سے آ پ کے لیے بخشش کی درخواست کروں گا‘ بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔‘‘

            فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہُ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ: ‘‘اور جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ نے اس سے اعلانِ بیزاری کر دیا۔ یقینا ابراہیم بہت دردِ دل رکھنے والے اور حلیم الطبع تھے۔‘‘

            حضرت ابراہیم وعدے کے مطابق اپنے والد کی زندگی میں اس کے لیے دعا کرتے رہے کہ جب تک وہ زندہ تھا تو امید تھی کہ شایدا للہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دے دے‘ لیکن جب اس کی موت واقع ہو گئی تو آپ نے استغفار بند کر دیا کہ زندگی میں جب وہ کفر پر ہی اڑا رہا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی تو ثابت ہو گیا کہ اب اس کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ 

UP
X
<>