May 3, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 79

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 

 (یہ منافق وہی ہیں ) جو خوشی سے صدقہ کرنے والوں کو بھی طعنے دیتے ہیں ، اور اُن لوگوں کو بھی جنہیں اپنی محنت (کی آمدنی) کے سوا کچھ اور میسر نہیں ہے، اس لئے وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اﷲ ان کا مذا ق اُڑاتا ہے، اور ان کیلئے دردناک عذاب تیار ہے

 آیت ۷۹: اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ: ‘‘جو طعن کرتے ہیں دل کی خوشی سے نیکی کرنے والے اہل ایمان پر (اُن کے ) صدقات کے بارے میں‘‘

            جب رسول اللہ نے تبوک کی مہم کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو مسلمانوں کی طرف سے ایثار اور اخلاص کے عجیب و غریب مظاہر دیکھنے میں آئے۔ ابو عقیل ایک انصاری صحابی تھے‘ ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور ساری رات کنویں سے پانی نکال نکال کر اس کے باغ کو سیراب کرتے رہے۔ صبح انہیں مزدوری کے طور پر کچھ کھجوریں ملیں۔ انہوں نے اُن میں سے آدھی کھجوریں تو گھر میں بچوں کے لیے چھوڑ دیں اور باقی آدھی حضور کی خدمت میں لا کر پیش کر دیں۔ آپ اس صحابی کے خلوص و اخلاص اور حسن عمل سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ کھجوریں سب مال و اسباب پر بھاری ہیں۔ لہٰذا آپ کی ہدایت کے مطابق انہیں سامان کے پورے ڈھیر کے اوپر پھیلا دیا گیا۔ لیکن وہاں جو منافقین تھے انہوں نے حضرت ابو عقیل کا مذاق اڑایا اور فقرے کسے کہ جی ہاں‘ کیا کہنے! بہت بڑی قربانی دی ہے! ان کھجوروں کے بغیر تو یہ مہم کامیاب ہو ہی نہیں سکتی تھی‘ وغیرہ وغیرہ۔

            وَالَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ اِلاَّ جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: ‘‘اور جن کے پاس اپنی محنت ومشقت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں (اور وہ اس میں سے بھی خرچ کرتے ہیں ) تو وہ (منافقین) ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے‘ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

UP
X
<>