قرآن کریم > طه
طه
•
كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيْهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِيْ ۚ وَمَنْ يَّحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِيْ فَقَدْ هَوٰى
جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اُس میں سے کھاؤ، اور اس میں سرکشی نہ کرو جس کے نتیجے میں تم پر میرا غضب نازل ہو جائے۔ اور جس کسی پر میرا غضب نازل ہوجاتا ہے، وہ تباہی میں گر کر رہتا ہے
•
وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو شخص ایمان لائے، اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر قائم رہے تو میں اُس کیلئے بہت بخشنے والا ہوں
•
وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى
اور (جب موسیٰ کوہِ طور پر اپنے لوگوں سے پہلے چلے آئے تو اﷲ نے ان سے کہا :) ’’ موسیٰ ! تم اپنی قوم سے پہلے جلدی کیوں آگئے؟‘‘
•
قَالَ هُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى
انہوں نے کہا : ’’ وہ میرے پیچھے پیچھے آیا ہی چاہتے ہیں ، اور پروردگار ! میں آپ کے پاس اس لئے جلدی آگیا تاکہ آپ خوش ہوں ۔‘‘
•
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـهُمُ السَّامِرِيُّ
اﷲ نے فرمایا : ’’ پھر تمہارے آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کو فتنے میں مبتلا کر دیا ہے، اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے۔‘‘
•
فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي
چنانچہ موسیٰ غم و غصے میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس لوٹے۔ کہنے لگے : ’’ میری قوم کے لوگو ! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ تو کیا تم پر کوئی بہت لمبی مدت گذر گئی تھی، یا تم چاہتے ہی یہ تھے کہ تم پر تمہارے رَبّ کا غضب نازل ہوجائے، اور اس وجہ سے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟
•
قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ
کہنے لگے : ’’ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر لوگوں کے زیورات کے بوجھ لدے ہوئے تھے، اس لئے ہم نے انہیں پھینک دیا، پھر اسی طرح سامری نے کچھ ڈالا
•
فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ
اور لوگوں کے سامنے ایک بچھڑا بنا کر نکال لیا، ایک جسم تھا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ لوگ کہنے لگے کہ : ’’ یہ تمہارا معبود ہے، اور موسیٰ کا بھی معبود ہے، مگر موسیٰ بھول گئے ہیں ۔‘‘
•
اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا
بھلا کیا انہیں یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا تھا، اور نہ ان کو کوئی نقصان یا نفع پہنچا سکتا تھا؟
•
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ : ’’ میری قوم کے لوگو ! تم اس (بچھڑے) کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو، اور حقیقت میں تمہارا رَبّ تو رحمن ہے، اس لئے تم میرے پیچھے چلو اور میری بات مانو۔‘‘