قرآن کریم > يوسف
يوسف
•
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے میرے قید خانے کے ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ (قید سے آزاد ہو کر) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ رہا دوسرا، تو اُسے سولی دی جائے گی، جس کے نتیجے میں پرندے اُس کے سر کو (نوچ کر) کھائیں گے۔ جس معاملے میں تم پو چھ رہے تھے، اُ س کا فیصلہ (اسی طرح) ہو چکا ہے۔ ‘‘
•
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں اُن کا گمان تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا، اُس سے یوسف نے کہا کہ : ’’ اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کردینا۔ ‘‘ پھر ہوا یہ کہ شیطان نے اُس کو یہ بات بھلا دی کہ وہ اپنے آقا سے یوسف کا تذکرہ کرتا۔ چنانچہ وہ کئی برس قید خانے میں رہے
•
وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ
اور (چند سال بعد مصر کے) بادشاہ نے (اپنے درباریوں سے) کہا کہ : ’’ میں (خواب میں ) دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں ، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں ، اور سات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں ۔ اے درباریو ! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ۔ ‘‘
•
قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الأَحْلاَمِ بِعَالِمِينَ
انہوں نے کہا کہ : ’’ یہ پریشان قسم کے خیالات (معلوم ہوتے) ہیں ، او ر ہم خوابوں کی تعبیر کے علم سے واقف (بھی) نہیں ۔ ‘‘
•
وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَاْ أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ
اور ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہو گیا تھا، اور اُسے ایک لمبے عرصے کے بعد (یوسف کی) بات یاد آئی تھی، اُس نے کہا کہ : ’’ میں آپ کو اس خواب کی تعبیر بتائے دیتا ہوں ، بس مجھے (یوسف کے پاس قید خانے میں ) بھیج دیجئے۔ ‘‘
•
يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
(چنانچہ اُس نے قید خانے میں پہنچ کر یوسف سے کہا :) ’’ یوسف ! اے وہ شخص جس کی ہر بات سچی ہوتی ہے ! تم ہمیں اس (خواب) کا مطلب بتاؤ کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھار ہی ہیں ، اور سات خوشے ہر ے بھرے ہیں ، اور دوسرے سات او ر ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں ۔ شاید میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (اور انہیں خواب کی تعبیر بتاؤں ) تاکہ وہ بھی حقیقت جان لیں ۔ ‘‘
•
قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تَأْكُلُونَ
یوسف نے کہا : ’’ تم سات سال تک مسلسل غلہ زمین میں اُگاؤ گے۔ اس دوران جو فصل کاٹو، اُس کو اُس کی بالیوں ہی میں رہنے دینا، البتہ تھوڑا سا غلہ جو تمہارے کھانے کے کام آئے، (وہ نکال لیا کرو۔)
•
ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تُحْصِنُونَ
پھر اس کے بعد تم پر سات سال ایسے آئیں گے جو بڑے سخت ہوں گے، اور جو کچھ ذخیرہ تم نے ان سالوں کے واسطے جمع کر رکھا ہو گا، اُ س کو کھا جائیں گے، ہاں البتہ تھوڑا سا حصہ جو تم محفوظ کر سکو گے، (صرف وہ بچ جائے گا)
•
ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
پھر اُس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں پر خوب بارش ہوگی، اور وہ اس میں انگور کا شیرہ نچوڑیں گے۔ ‘‘
•
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا کہ : ’’ اُس کو (یعنی یوسف کو) میرے پاس لے کر آؤ۔ ‘‘ چنانچہ جب اُن کے پاس ایلچی پہنچا تو یوسف نے کہا : ’’ اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ، اور اُن سے پوچھو کہ اُن عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ میرا پروردگار ان عورتوں کے مکر سے خوب واقف ہے۔ ‘‘