قرآن کریم > يوسف
يوسف
•
قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ
وہ بولے : ’’ ہم اُس کے والد کو اُس کے بارے میں بہلانے کی کوشش کریں گے (کہ وہ اُسے ہمارے ساتھ بھیج دیں ) اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔ ‘‘
•
وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور یوسف نے اپنے نوکروں سے کہہ دیا کہ وہ ان (بھائیوں ) کا مال (جس کے بدلے انہوں نے غلہ خریدا ہے) انہی کے کجاووں میں رکھ دیں ، تاکہ جب یہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس پہنچیں تو اپنے مال کو پہچان لیں ۔ شاید (اس احسان کی وجہ سے) وہ دوبارہ آئیں
•
فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
چنانچہ جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : ’’ اباجان ! آئندہ ہمیں غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے، تاکہ ہم (پھر) غلہ لا سکیں ، اور یقین رکھئے کہ ہم اُس کی پوری پوری حفاظت کریں گے۔ ‘‘
•
قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
والد نے کہا : ’’ کیا میں اُس کے بارے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں تم پر کیا تھا ؟ خیر ! اﷲ سب سے بڑھ کر نگہبان ہے، اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘
•
وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی اُن کو لوٹا دیا گیا ہے۔ وہ کہنے لگے : ’’ ابا جان ! ہمیں اور کیا چاہیئے ؟ یہ ہمارا مال ہے جو ہمیں لوٹا دیا گیا ہے۔ اور (اس مرتبہ) ہم اپنے گھر والوں کیلئے اور غلہ لائیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لے کر آئیں گے۔ (اس طرح) یہ زیادہ غلہ بڑی آسانی سے مل جائے گا۔ ‘‘
•
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
والد نے کہا : ’’ میں اس (بنیامین) کو تمہارے ساتھ اُس وقت تک ہر گز نہیں بھیجوں گا جب تک تم اﷲ کے نام پر مجھ سے یہ عہد نہ کرو کہ اُسے ضرور میرے پاس واپس لے کر آؤ گے، اِلا یہ کہ تم (واقعی) بے بس ہو جاؤ۔ ‘‘ چنانچہ جب انہوں نے اپنے والد کو یہ عہد دے دیا تو والد نے کہا : ’’ جو قول و قرار ہم کر رہے ہیں ، اُس پر اﷲ نگہبان ہے۔ ‘‘
•
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور (ساتھ ہی یہ بھی) کہا کہ : ’’ میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے (شہر میں ) داخل نہ ہونا، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ میں اﷲ کی مشیت سے تمہیں نہیں بچا سکتا، حکم اﷲ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ا ُسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو، انہیں چاہیئے کہ اُسی پر بھروسہ کریں ۔ ‘‘
•
وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
اور جب وہ (بھائی) اُسی طرح (مصر میں ) داخل ہوئے جس طرح اُن کے والد نے کہا تھا تو یہ عمل اﷲ کی مشیت سے اُن کو ذرا بھی بچانے والا نہیں تھا، لیکن یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو انہوں نے پوری کر لی۔ بیشک وہ ہمارے سکھائے ہوئے علم کے حامل تھے، لیکن اکثر لوگ (معاملے کی حقیقت) نہیں جانتے
•
وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس خاص جگہ دی، (اور انہیں ) بتایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں ، لہٰذا تم ان باتوں پر رنجیدہ نہ ہونا جو یہ (دوسرے بھائی) کرتے رہے ہیں
•
فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
پھر جب یوسف نے اُن کا سامان تیار کر دیا تو پانی پینے کا پیالہ اپنے (سگے) بھائی کے کجاوے میں رکھوادیا، پھر ایک منادی نے پکار کر کہا کہ : ’’ اے قافلے والو ! تم چور ہو۔ ‘‘