April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى

الشورى

            سورۃ الشوریٰ  کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ توحید ِعملی کا وہ مضمون جو سورۃ الزمر سے شروع ہوا تھا، سورۃ المؤمن اور سورۂ حٰمٓ السجدۃ میں ایک خاص ترتیب وتدریج سے آگے بڑھتا ہوا اس سورت میں آ کر ’’اجتماعی عملی توحید‘‘کی شکل میں اپنے نقطہ عروج (climax) پر پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ اس مضمون کا صحیح ادراک اور شعور حاصل کرنے کے لیے توحید عملی اور اجتماعیت کے باہمی ربط و لزوم کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے یہ حقیقت تو بہر حال کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ فرد اور معاشرے کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ انسان ایک متمدن حیوان ہے، وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا، اس لیے دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا اس کی مجبوری ہے۔ چنانچہ جب بہت سے انسان مل جل کر رہتے ہیں تو ایک اجتماعی نظام تشکیل پاتا ہے۔ پھر اس اجتماعی نظام کے اندر حسب ضرورت چھوٹے چھوٹے کئی نظام اور شعبے وجود میں آ جاتے ہیں، جیسے کہ آج ہر معاشرے میں عائلی نظام، معاشرتی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام وغیرہ موجود ہیں۔

            اس تمہید کے حوالے سے موضوع کے بارے میں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ جب تک کسی انسانی اجتماعیت میں موجود تمام نظام اللہ کی حاکمیت کے تابع نہ ہو جائیں تب تک اجتماعی سطح پر توحید قائم نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں انفرادی طور پر تمام لوگ توحید پرست بھی ہوںلیکن معاشرے کے اجتماعی نظام پر باطل کا غلبہ ہو تو اس معاشرے کو اسلامی معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں ان تمام توحید پرست افراد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے یاملک سے باطل نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور وہاں اللہ کا نظام قائم کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔ ان لوگوں کی انفرادی توحید بھی تب ہی قابل قبول ہو گی جب وہ اپنے تن من دھن سے باطل نظام کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی جدوجہد مسلسل جاری رکھیں گے۔ لیکن اگر وہ باطل نظام کے تحت اطمینان کے ساتھ گزر بسر کر رہے ہوں، دن رات اپنے کیرئیر زسنوار نے، کاروبار بڑھا نے اور جائیدادیں بنانے میں مصروف و مشغول ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ طاغوت کی اطاعت کو قبول کر کے اللہ کی حاکمیت کا انکار کر چکے ہیں۔ اس حالت میں اگروہ صوم و صلوٰۃ کے پابند بھی ہوں اور بہت سے دوسرے نیک اعمال کا اہتمام بھی کرتے ہوں تو بھی وہ اللہ کے ہاں سرخرو نہیں ہو سکتے۔

            سورۃ الشوریٰ کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ معاشرے میں اجتماعی سطح پر توحید کے نفاذ کے لیے ’’اقامت ِدین‘‘ کی اصطلاح صرف اسی سورت (آیت: ۱۳) میں آئی ہے۔ چنانچہ اقامت دین کے موضوع پر یہ سورت قرآن حکیم کا ذروۂ سنام ہے۔ 

UP
X
<>