قرآن کریم > الإسراء
الإسراء
•
اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا ۭ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ ۭ قُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا
یا کوئی اور ایسی مخلوق بن جاؤ جس کے بارے میں تم دل میں سوچتے ہو کہ (اُس کا زندہ ہونا) اور بھی مشکل ہے، (پھر بھی تمہیں زندہ کر دیاجائے گا)‘‘ اب وہ کہیں گے کہ : ’’ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟‘‘ کہہ دو کہ :’’ وہی زندہ کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘ پھر وہ تمہارے سامنے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ : ’’ ایسا کب ہوگا؟‘‘ کہہ دینا کہ : ’’ کیا بعید ہے کہ وہ وقت قریب ہی آگیا ہو۔‘‘
•
يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا
جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اُس کی حمد کرتے ہوئے اُس کے حکم کی تعمیل کروگے، اور یہ سمجھ رہے ہوگے کہ تم بس تھوڑی سی مدت (دنیا میں ) رہے تھے
•
وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
میرے (مومن) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساڈالتا ہے۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دُشمن ہے
•
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۭ اِنْ يَّشَاْ يَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ يَّشَاْ يُعَذِّبْكُمْ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا
تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم پر رحم فرمادے، اور چاہے تو تمہیں عذاب دیدے، اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں ان کی باتوں کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے
•
وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّنَ عَلٰي بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاوُدَ زَبُوْرًا
اور تمہارا پروردگار اُن سب کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں ، اور جو زمین میں ہیں ۔ اور ہم نے کچھ نبیوں کو دوسرے نبیوں پر فضیلت دی ہے، اور ہم نے داود کو زبور عطا کی تھی
•
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهِ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا
(جو لوگ اﷲ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو مانتے ہیں ، اُن سے) کہہ دو کہ : ’’ جن کو تم نے اﷲ کے سوا معبود سمجھ رکھا ہے، انہیں پکار کر دیکھو۔ ہوگا یہ کہ نہ وہ تم سے کوئی تکلیف دور کرسکیں گے، اور نہ اُسے تبدیل کر سکیں گے۔‘‘
•
أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ تو خود اپنے پروردگار تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ اُن میں سے کون اﷲ کے زیادہ قریب ہو جائے، اور وہ اُس کی رحم ت کے امیدوار رہتے ہیں ، اور اُس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقینا تمہارے رَبّ کا عذاب ہے ہی ایسی چیز جس سے ڈرا جائے
•
وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں ، یا اُسے سخت عذاب نہ دیں ۔ یہ بات (تقدیر کی) کتاب میں لکھی جاچکی ہے
•
وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ۭ وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا
اور ہم کو نشانیاں (یعنی کفار کے مانگے ہوئے معجزات) بھیجنے سے کسی اور چیز نے نہیں، بلکہ اس بات نے روکا ہے کہ پچھلے لوگ ایسی نشانیوں کو جھٹلا چکے ہیں ۔ اور ہم نے قومِ ثمود کو اُونٹنی دی تھی جو آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھی، مگر انہوں نے اُس کے ساتھ ظلم کیا۔ اور ہم نشانیاں ڈرانے ہی کیلئے بھیجتے ہیں
•
وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ۭ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا
اور (اے پیغمبر !) وہ وقت یا دکرو جب ہم نے کہا تھا کہ تمہاراپروردگار (اپنے علم سے) تمام لوگوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور ہم نے جو نظارہ تمہیں دکھا یا ہے، اُس کو ہم نے (کافر) لوگوں کیلئے بس ایک فتنہ بنا دیا، نیز اُس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے۔ اور ہم تو ان کو ڈراتے رہتے ہیں ، لیکن اس سے ان کی سخت سرکشی ہی میں اضافہ ہو رہا ہے